www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

352906
امریکا کے تیس سابق اعلی حکومتی عھدیداروں نے یمن کی جنگ میں واشنگٹن کی مداخلت کی ذمہ داری قبول کرتے ھوئے امریکی مداخلت کو فوری طور پر بند، جنگ کے خاتمے اور سعودی اتحاد کو ھرطرح کی مدد روک دئے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔
سابق امریکی صدر باراک اوباما کی حکومت کے دور کے تیس اعلی حکومتی عھدیداروں نے موجودہ امریکی صدر ٹرمپ کو ایک خط ارسال کرکے یمن میں فوری جنگ بندی اور سعودی اتحاد کو ھرطرح کی مدد روک دئے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس خط پر اوباما انتظامیہ کے سابق عھدیداروں منجملہ قومی سلامتی کے امور کی سابق مشیر سوزان رائیس، سی آئی اے کے سابق سربراہ جان برینن، سابق نائب وزیرخارجہ امریکی ونڈی شرمن اور وائٹ ھاؤس کی سینیئر عھدیدار لیزا موناکو نے بھی دستخط کئے ہیں۔
خط میں امریکی صدر سے کھا گیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے یمن کی جنگ میں سعودی عرب کے لئے اپنی حمایت تیز کردی ہے اور حتی وہ بندشیں بھی جو ھمارے دور میں عائد کی گئی تھیں ختم کردی گئی ہیں۔ خط میں کھا گیا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ یمن کی اس تباہ کن جنگ میں امریکی رول کو ختم کیا جائے۔
ٹرمپ کے نام یہ خط ایک ایسے وقت ارسال کیا گیا ہے جب امریکی وزیرخارجہ نے اس سے پھلے کھا تھا کہ یمن کی جنگ امریکا کی قومی سلامتی کی ترجیحات میں شامل ہے۔
امریکی وزیرخارجہ کا کھنا تھا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو امریکی ھتھیاروں کی ضرورت ہے اور امریکا کے جنگی طیاروں کو اڑانے کی ٹریننگ کے لئے ان دونوں ملکوں کو امریکی ماھرین کی مدد کی ضرورت ہے۔
امریکی وزیرخارجہ اور دیگر امریکی حکام کے ان ھی خیالات کی بنیاد پر واشنگٹن سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو بھاری ھتھیار فروخت کرکے بے انتھا منافع حاصل کر رھا ہے۔
اس دوران برطانوی وزیرخارجہ جرمی ھنٹ نے یمن کی جنگ کو ختم اور جمالی خاشقجی قتل کیس کی تحقیقات میں تعاون پربات چیت کے لئے پیرکو سعودی عرب روانہ ھونے سے قبل اپنے ایک بیان میں کھا ہے کہ یمن میں انسانی جانوں کا ضیاع اتناہ زیادہ ہے کہ جس کا اندازہ نھیں لگایا جاسکتا اور اس کے علاوہ اس جنگ کے نتیجے میں دسیوں لاکھ افراد بے گھر ھوگئے ہیں جبکہ قحط اور وبائی امراض نے لاکھوں یمنی باشندوں کی جان کو خطرے سے دوچار کردیا ہے اس لئے اب اس بحران کو حل کو کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ جنگ بندی کے لئے سیاسی مذاکرات شروع ھوں اور صلح کے قیام کے لئے کوششیں کی جائیں۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ برطانیہ بھی امریکا کی طرح جنگ یمن میں سعودی عرب کا اھم ترین حامی رھا ہے اوراس نے بھی سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کو بڑے پیمانے پر ھتھیار فروخت کئے ہیں۔
مبصرین کا کھنا ہے کہ یورپ اورامریکا نے عالمی رائے عامہ کے دباؤ میں آکر یمن پر سعودی اتحاد کے حملوں کو بند کرانے کا مطالبہ کافی تاخیر سے کیا ہے جبکہ ان ملکوں نے جنگ یمن میں گذشتہ ساڑھے تین برسوں کے دوران سعودی عرب کی ھمیشہ کھل کر حمایت کی ہے۔

Add comment


Security code
Refresh