www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

910886
مخالف صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں سعودی ولی عھد بن سلمان کے کردار کے حوالے سے خود امریکی حکام میں اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں۔ ایک جانب سی آئی اے نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جمال خاشقجی کا قتل سعودی ولی عھد کے حکم سے انجام پایا ہے تو دوسری جانب صدر ٹرمپ بن سلمان کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کر رھے ہیں۔
ترکی کے شھر استنبول کے سعودی قونصل خانے میں مخالف صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا معاملہ جھاں سعودی عرب کے ولی عھد اور ڈی فیکٹو کنگ بن سلمان کے لیے وبال جان بن گیا ہے وھیں امریکی حکام اس معاملے پر مسلسل قلابازیاں کھاتے دکھائی دے رھے ہیں۔
سعودی عرب کے اھم ترین اتحادی کی حثیت سے امریکہ میں جمال خاشقجی قتل کیس کے حوالے سے زبردست ردعمل سامنے آیا ہے اور امریکی ایوان نمائندگان کے متعدد ارکان کی جانب سے ریاض حکومت کے خلاف تادیبی کاروائی کا مطالبہ بھی کیا جا رھا ہے۔
اس دباؤ کے نتیجے میں امریکی محکمہ خزانہ نے جمال خاشقجی قتل میں ملوث سترہ افراد کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے جو بظاھر نمائشی اقدام معلوم ھوتا ہے جس کا مقصد اندرونی رائے عامہ کے دباؤ کو کم کرنا ہے۔
حالانکہ وائٹ ھاؤس بدستور اس بات کی کوشش کر رھا ہے کہ جمال خاشقجی قتل کیس میں سعودی عرب کے ڈیفیکٹو کنگ اور ولی عھد کے کردار کو قبول کرنے سے گریز اور بن سلمان کی چاپلوسی کے ذریعے واشنگٹن ریاض تعلقات کے فروغ کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔
سی آئی اے کی جانب سے اس اعلان کے باوجود کہ وہ اس نتیجے پر پھنچی ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل کا حکم بن سلمان نے دیا تھا، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کھا ہے کہ انھیں اس کیس کے حوالے سے سی آئی کی تحقیقاتی رپورٹ موصول نھیں ھوئی ہے۔
دوسری جانب امریکی وزیر جنگ نے ٹرمپ کے برخلاف موقف اختیار کرتے ھوئے کھا کہ اس بات میں کوئی شک نھیں کہ مخالف صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا حکم اعلی سعودی عھدیدار نے دیا تھا۔
ادھر امریکی وزیر خارجہ نے کھا ہے کہ یہ رپورٹیں کہ حکومت امریکہ جمال خاشقجی قتل کیس کے حوالے سے کسی حتمی نتیجے پر پھنچ گئی ہے، بھت زیادہ قابل اعتبار نھیں ہیں۔
امریکی حکام کی یہ تضاد بیانیاں ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب سی آئی اے کے عھدیداروں کا کھنا ہے کہ وہ اس نتیجے پر پھنچے ہیں کہ ترکی میں سعودی قونصل خانے میں مخالف صحافی جمال خاشقجی کو قتل کرنے کا حکم سعودی ولی عھد بن سلمان نے دیا تھا۔
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ جمال خاشقجی قتل کیس کے حوالے سے ٹرمپ کا موقف، ان کے لیے امریکہ سعودی عرب تعلقات کی بے پناہ اھمیت کی غمازی کرتا ہے جس سے انھوں نے بھت زیادہ اقتصادی اور تجارتی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔
ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے فورا بعد اپنے غیر ملکی دورے کے لیے سب سے پھلے سعودی عرب کا انتخاب کیا تھا جھاں انھوں نے ایک سو دس ارب ڈالر مالیت کے اسلحے کی فروخت کے معاھدے پر دستخط بھی کیے تھے۔
اس دورے میں سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان ھونے والے معاھدوں کی مجموعی مالیت چار سو پچاس ارب ڈالر بتائی جاتی ہے جس سے امریکہ میں روزگار کے ھزاروں مواقع میسر آئیں گے۔
بن سلمان کو بے گناہ ظاھر کرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ٹرمپ کو کانگریس سمیت اندرونی حلقوں کے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔
امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ امریکہ کو سعوی عرب کی بے رحم استبدادی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات پر مکمل نظر ثانی کرنا ھو گی اور یہ کام جنگ یمن میں سعودی حکومت کی حمایت کے خاتمے سے شروع ھونا چاھیے۔

Add comment


Security code
Refresh