فروشگاه اینترنتی هندیا بوتیک
آج: Wednesday, 17 September 2025

www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

203582
محسن انسانیت امام حسین علیہ السلام کی 61 ھ میں راہ خدا میں اپنے خانوادے اور انصاران سمیت سرزمین کربلا میں دینے جانے والی عظیم الشان قربانی کی یاد ھر گزرتے سال کے ساتھ ساتھ بھرپور عقیدت و احترام اور جوش و جذبہ کیساتھ بڑھتی جا رھی ہے۔
ایک وقت وہ تھا کہ جب روضہ امام حسین علیہ السلام کو کئی مرتبہ مسمار اور منھدم کیا گیا، زائرین امام عالی مقام علیہ السلام کو ایسی ایسی مشکلات و مصائب کا سامنا کرکے پھنچنا پڑتا تھا کہ جو ناقابل بیان ہیں۔ ظالم و جابر حکمرانوں نے ھر ممکن کوشش کی کہ کسی نہ کسی طرح امام حسین علیہ السلام کی محبت کو لوگوں کے دلوں سے نکال دیں، کربلا سے شروع ھونے والے انقلاب کو اسی صحرا میں دفن کر دیا جائے، انسانیت کو حریت اور آزادی کا درس دینے والی کتاب کو ھمیشہ کیلئے بند کر دیا جائے، ظلم و بربریت کیخلاف اٹھنے والی اس آواز کو دبا دیا جائے، جو کہ ھر دور کے مظلوم کو ھمت و حوصلہ دیتی ہے، یزید کے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈال دیا جائے۔ لاکھ کوششوں کے باوجود ھر دور کے یزید اور ابن زیاد اپنی ان کوششوں میں ناکام رھے، محبان اھہلبیت علیہ السلام اور ھر رنگ و مذھب سے تعلق رکھتے ھوئے کربلا سے درس حریت لینے والے ھر انسان نے محسن انسانیت حضرت امام حسین علیہ السلام کی محبت کو اپنے دلوں میں نہ صرف محفوظ رکھا بلکہ آج کے دور میں اربعین کے موقع پر کربلا میں 4 کروڑ سے زیادہ تعداد میں جمع ھوکر ثابت کر دیا کہ اے حسین علیہ السلام آپ کی محبت کو ھمارے دلوں سے دنیا کا کوئی یزید نھیں نکال سکتا۔
سرزمین کربلا پر دنیا بھر سے کروڑوں زائرین کا ایک ساتھ جمع ھونا اور لبیک یاحسین علیہ السلام کی صدائیں بلند کرنا ایک عجیب دلفریب منظر تھا، ایک وقت وہ تھا کہ نواسہ رسول (ص) 61 ھ کو یوم عاشور کو اپنے شھید بیٹوں، بھانجوں، بھائیوں، بھتیجوں اور انصاران کی لاشیں اٹھاتے اٹھاتے تھک چکے تھے، شدید پیاس اور گرمی کے عالم میں زخموں سے چور حضرت زھراء (س) کا لعل تنھا یزیدی لشکر کے سامنے کھڑا کہہ رھا تھا کہ ’’ہے کوئی میری مدد کرنے والا۔‘‘ اے حسین علیہ السلام آج آپ دیکھیں، ایک نھیں آپ کے کروڑوں محبان آپؑ کیلئے کربلا پھنچے، آپ جیت گئے، یزید ھار گیا۔
چند سال قبل جب عالمی دھشتگرد تنظیم داعش نے عراق میں اپنا قدم رکھا اور موصل پر قبضہ کرنے کے بعد آھستہ آھستہ پورے عراق کو اپنے ناپاک وجود کی لپیٹ میں لینے کی کوشش کی تو استعماری طاقتیں یہ سوچ رھی تھیں کہ ان کا خلق کردہ یہ یزیدی لشکر آج داعش کی شکل میں عراق کے ساتھ ساتھ شام پر بھی قبضہ کر لے گا۔ داعش کے دھشتگرد سرعام بڑے بڑے کانوائے اور جلوسوں کی شکل میں نقل مکانی کرتے دیکھے جاتے تھے، مھنگی مھنگی گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں لوگوں کے دلوں میں دھشت بٹھانے کیلئے سڑکوں پر نکالی جاتی تھیں۔ لیکن جب گذشتہ روز نجف اشرف سے کربلا معلیٰ تک امام حسین علیہ السلام کے کروڑوں متوالوں کو پیدل اور گاڑیوں میں گزرتے دیکھا تو ایسا محسوس ھوا کہ اس دور کا یزیدی لشکر (داعش) بھی آج ھار گیا۔
کربلا ھر گزرتے وقت کیساتھ ساتھ ھر دور کے یزید کو بے نقاب کر رھی ہے، وقت کے ابن زیاد اور عمر سعد کے منہ پر چڑھے نقاب ھٹا رھی ہے، دنیا بھر میں جھاں جھاں بھی آج ظلم ھو رھا ہے، کربلا ھی وھاں پر مظلوموں کیلئے ڈھال بنی ھوئی ہے، کربلا ھی انھیں طاقتور اور ظالم قوتوں کیخلاف ڈٹے رھنے کا حوصلہ دیئے ھوئے ہے، فلسطین ھو، یمن ھو، کشمیر ھو یا کوئی اور ملک۔ ھر مقام پر مظلومین کو آج مشکلات کا سامنا تو ہے، لیکن کربلا سے درس حریت لینے والوں کیلئے فتح یقیناً زیادہ دور نھیں۔ ھر ملک کی اپنی سرحدیں، اپنا پرچم، اپنی ثقافت اور اپنے اھداف ھوتے ہیں، لیکن جب اس بار بھی اربعین کے موقع پر نہ صرف ایران بلکہ دنیا کے مختلف ممالک سے زائرین کربلا پھنچے تو یوں محسوس ھوتا تھا کہ ان سب کا ایک ھی ملک ہے، جس کا نام ہے کربلا، یھاں خود کو کوئی مھمان محسوس نھیں کر رھا تھا، سب کا ایک ھی پرچم تھا، جس کا نام ہے پرچم عباسؑ، سب کی ایک ھی ثقافت اور ایک ھی ھدف محسوس ھوتا تھا، زیارت نواسہ رسول (ص)۔ یعنی حسین علیہ السلام ھم سے راضی ھو جائیں۔ ھر ملک کے کسی بھی دوسرے ملک کے ساتھ کسی نہ کسی سطح پر دوریاں اور اختلافات ھوسکتے ہیں، مگر نجف سے کربلا تک مشی کے دوران ھر قسم کا اختلاف محبت میں اور دوریاں قربتوں میں بدل جاتی ہیں۔
عراقی شھری اس طرح ان زائرین کی خدمت کرتے ہیں، جیسے کوئی غلام اپنے آقا کی کرتا ھوگا، ان میزبانوں کو اس سے کوئی غرض نھیں ھوتی کہ یہ زائر امام کس ملت سے ہے، کونسی زبان بولتا ہے، شیعہ ہے یا سنی، حتیٰ انھیں اس سے بھی کوئی سروکار نھیں کہ جس زائر کے وہ پاوں دبا رھے ہیں، وہ مسلمان ہے یا کسی اور مذھب کا پیروکار۔ اگر یوں کھا جائے کہ کربلا میں صرف ایک ھی مذھب نظر آتا ہے، جس کا نام ہے انسانیت، تو غلط نہ ھوگا۔
عراقی میزبان گو پورے سال اس موقع کے انتظار میں رھتے ہیں، وہ نجف سے کربلا جانے والے ان زائرین کیلئے تمام راستہ میں مختلف اقسام کے کھانوں اور مشروبات کا بندوبست کرتے ہیں، تھکے ھوئے زائرین کو روک کر ان کے پاوں دھوتے ہیں، ان کے پیروں کی مالش کرتے ہیں، حتیٰ کہ اپنے گھروں کے دروازے ان کیلئے کھول دیتے ہیں اور منت و سماجت کرتے ہیں کہ خدا کیلئے صرف ایک رات کیلئے ھمارے مھمان بن جائیں، شائد آپ کی خدمت کی وجہ سے مولا حسین علیہ السلام ھم سے راضی ھو جائیں، راستہ میں کھڑے یہ عراقی شھری زائرین کے قدموں میں گر گر یہ التجا کر رھے ھوتے ہیں کہ آپ کو حسین کا واسطہ ھم سے یہ نیاز لے لیں، ان زائرین کے قدموں کی خاک تک کو میزبانوں کی جانب سے اٹھا کر سر پر لگاتے دیکھا گیا ہے۔ اس سرزمین پر غریب، امیر کا فرق بھی مٹ جاتا ہے۔
عراق کے سابق سربراہ صدام حسین کے دور حکومت کے خاتمے کے بعد سے یوم عاشورہ اور اربعین کے موقع پر دنیا بھر سے زائرین کی کربلا آمد کا جو سلسلہ شروع ھوا ہے، وہ گزرتے وقت کیساتھ ساتھ ایک تحریک بنتا جا رھا ہے، زائرین امام عالی مقام کی تعداد میں ھر سال اضافہ ھوتا جا رھا ہے، بلاشبہ اربعین حسینی کا یہ اجتماع نہ صرف مسلم امہ بلکہ عالمی سطح پر سب سے بڑا عوامی اجتماع بن چکا ہے، عالمی میڈیا کی جانب سے کوریج نہ ملنے کے باوجود سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر کی توجہ اس روحانی اجتماع کی جانب مبذول ھو رھی ہے۔ یہ عالمی اجتماع آج یہ واضح کر رھا ہے کہ حسین علیہ السلام کی شخصیت آج بھی پوری دنیا کے انسانوں کیلئے امن و محبت کا محور ثابت ھوسکتی ہے، فرقوں میں بٹی امت مسلمہ کو یہ اربعین کا یہ اجتماع مرکز وحدت پر اکٹھا کر سکتا ہے۔
دنیا کے مختلف ملک سے آنے والے زائرین کربلا سے اگر امن، محبت، اتحاد و وحدت، روحانیت اور بندگی خدا کا درس لیکر اپنے اپنے ملک واپس جائیں اور ان پیغامات کا پرچار کریں تو دنیا بھر کو امن و محبت کا گھوارہ بنایا جاسکتا ہے، تفرقوں کو مٹایا جاسکتا ہے، انسانیت کی فلاح و بھبود کیلئے اقدامات کئے جاسکتے ہیں، امت مسلمہ کو سربلندی اور اتحاد کی طرف لایا جاسکتا ہے، کیونکہ اربعین حسینی کے اس عظیم الشان اجتماع نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ صرف صرف امام حسین علیہ السلام کی محبت ہے، جس نے ھم سب کو سرزمین کربلا پر یکجا کر دیا۔
رپورٹ: سید شاھریز علی

Add comment


Security code
Refresh