
مارچ 2015ء میں سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات، بحرین، کویت، قطر، سوڈان، اردن اور مصر کے تعاون اور امریکہ اور اسرائیل کی خصوصی حمایت سے یمن کے خلاف فوجی چڑھائی کر دی۔
سعودی عرب نے اس جنگ کا نام "عاصفۃ الحزم" رکھا۔ اب تک اس جنگ میں بڑی تعداد میں بیگناہ یمنی شھری شھید ھو چکے ہیں جبکہ یمن کا انفرااسٹرکچر بھی تباہ ھو کر رہ گیا ہے۔ دوسری طرف عربی – مغربی – عبری اتحاد نے اس جنگ کو جاری رکھا ھوا ہے۔
اس جارحانہ اور وحشیانہ حملے کی نوعیت کو بالائے طاق رکھتے ھوئے اگر صرف حقیقت پسندی اور انسان پسندی پر مبنی نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ھو گا کہ اس جنگ کا نتیجہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی رسوائی اور ذلت کے علاوہ کچھ نھیں نکلا۔ ذیل میں اس بارے میں چند اھم نکات پیش کئے جا رہے ہیں:
1۔ یہ جنگ درحقیقت موجودہ حساس دور میں ایک مسلمان ملک کا دوسرے مسلمان ملک پر جارحانہ حملے کی بدعت گزاری ہے۔ مزید یہ کہ اس حملے کی کوئی معقول وجہ بھی نھیں۔
2۔ یمن ایک انتھائی غریب عرب ملک تصور کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب کی سربراھی میں یمن پر جارحیت کرنے والے اتحاد میں شامل عرب ممالک مالی اور فوجی اعتبار سے کھیں زیادہ طاقتور اور ترقی یافتہ ہیں۔ لھذا یہ ایک انتھائی غیر منصفانہ جنگ ہے۔
3۔ یمن جنگ میں سعودی عرب کا کریہہ چھرہ سب پر عیاں ھو گیا اور اسرائیل کے ساتھ اس کی دوستی اور تعاون بھی کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ اب اکثر مسلمان ممالک اس حقیقت کو درک کر چکے ہیں کہ سعودی عرب ماضی کی طرح اسرائیل کے مقابلے میں عرب دنیا کی فتح کا علمبردار نھیں رھا اور اب اس کا مقصد اسرائیل سے دوستانہ تعلقات قائم کرنا اور سازباز کرنا ہے۔
4۔ اس جنگ کا مقصد یمن کو توڑنا تھا کیونکہ ایک مضبوط اور بڑا یمن اپنے اردگرد کی جیوپولیٹیکل فضا پر اثرانداز ھو سکتا ہے اور خاص طور پر بحیرہ احمر، خلیج عدن اور باب المندب جیسے اسٹریٹجک آبنائے میں انرجی کے ذخائر کی نقل و حرکت کو متاثر کر سکتا ہے۔ لھذا اسے توڑ کر چھوٹے چھوٹے کمزور ممالک میں تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی۔
5۔ آل سعود رژیم یمن جنگ کو جاری رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کے نتیجے میں مزید مسلمان اور بے دفاع مظلوم یمنی شھریوں کی شھادت کا خطرہ پایا جاتا ہے۔ یمن کی ایک معتبر ویب سائٹ "المرکز القانونی للحقوق و التنمیہ" پر جاری ھونے والے اعداد و شمار کے مطابق اب تک یمن جنگ میں 15 ھزار بیگناہ شھری شھید ھو چکے ہیں جبکہ 23 ھزار سے زیادہ افراد زخمی ھوئے ہیں۔ ظالم سعودی رژیم کو ایک دن عالمی رائے عامہ اور اسلامی دنیا کے سامنے اس مجرمانہ اقدام کا حساب چکانا ھو گا۔
6۔ آل سعود رژیم نے خطے میں اجنبی طاقتوں کے داخلے کا بھانہ فراھم کیا ہے اور خطے کی سکیورٹی ان کے سپرد کر دی ہے۔ سعودی رژیم نے اپنی سلامتی کیلئے عالمی استعماری قوتوں خاص طور پر امریکہ پر مکمل انحصار کر رکھا ہے لھذا ایسی صورت میں وہ اسلامی دنیا کی مرکزیت کا دعوی نھیں کر سکتی۔ کیونکہ اسلام کی حقیقی تعلیمات کی بنیاد استکباری قوتوں سے مقابلہ اور مظلوموں کے دفاع پر استوار ہے۔ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ آل سعود رژیم نے امریکہ کی حمایت اور شہہ پر یمن کے خلاف فوجی جارحیت کا آغاز کیا ہے۔
7۔ اس میں کوئی شک نھیں کہ سعودی فرمانروا ملک سلمان اور ان کے بیٹے محمد بن سلمان اپنے سیاسی حریفوں کو میدان سے نکال باھر کرنا چاھتے تھے اور اسی لئے انھوں نے یمن کے خلاف جنگ کا بھی آغاز کیا۔ اس جنگ میں ان کا ایک مقصد آل سعود کی طاقت میں اضافہ کرنا بھی تھا۔ ان کی یہ آرزو تو پوری نہ ھو سکی اور الٹا یمنیوں کی مزاحمت نے ان کی موجودہ طاقت کو بھی چکناچور کر کے رکھ دیا۔
8۔ سعودی عرب اپنے روایتی بادشاھی نظام حکومت اور عوام میں مقبولیت کی کمی کے باعث اس بات سے شدید خوفزدہ ہے کہ کھیں یمن کی انقلابی قوم کا جذبہ سعودی شھریوں اور دیگر عرب ممالک میں سرایت نہ کر جائے لھذا یمن کے خلاف جنگ میں کامیابی کیلئے اپنی پوری طاقت میدان میں لا چکا ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب میں حکمفرما غیرعوامی اور غیرجمھوری نظام پوری دنیا کی نظر میں اس کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔
9۔ اقوام عالم خاص طور پر مسلمان قومیں جان چکی ہیں کہ یمن کے خلاف سعودی جارحیت کا مقصد اس ملک کے تیل و گیس کے ذخائر پر قبضہ جمانا اور دنیا کے دوسرے اسٹریٹجک آبنائے یعنی باب المندب پر کنٹرول قائم کرنا ہے۔ دنیا کی تقریباً 6 فیصد تجارت اس آبنائے کے ذریعے انجام پاتی ہے۔
10۔ سعودی عرب نے یمن جنگ کا فائدہ اٹھاتے ھوئے عربی نیٹو تشکیل دینے کی کوشش کی۔ یہ منصوبہ بھی خطے میں اپنی ناجائز طاقت پھیلانے کی ایک سازش ہے۔ اسی طرح اس کا مقصد دیگر ممالک کیلئے بھی اپنا اثرورسوخ بڑھانے کا راستہ ھموار کرنا ہے۔
11۔ تکفیری دھشت گردوں کو سعودی عرب کی جانب سے ملنے والی امداد کسی پر ڈھکی چھپی نھیں۔ آل سعود رژیم گذشتہ چند سالوں کے دوران مختلف محاذوں جیسے عراق، شام اور لبنان میں مسلسل ناکامیوں کے بعد خطے میں سیاسی اور اسٹریٹجک اثرورسوخ کھو چکی ہے۔ لھذا اب وہ یمن میں کامیابی حاصل کر کے خطے میں اپنا کھویا ھوا مقام دوبارہ پانے کی کوشش کر رھی ہے۔
12۔ سعودی رژیم درحقیقت خطے میں عالمی استکباری قوتوں یعنی امریکہ اور اسرائیل کی نمائندہ کا کردار ادا کر رھی ہے اور اسی بنیاد پر یمن میں اسلامی مزاحمتی قوتوں کے خاتمے کیلئے ان کے خلاف نبرد آزما ہے۔
13۔ انصاراللہ یمن اور انقلاب یمن کی عوامی کمیٹی خطے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کے اتحادی تصور کئے جاتے ہیں لھذا ان کی کامیابی خطے میں اسلامی مزاحمت کی پوزیشن بھتر بنانے میں موثر ثابت ھو سکتی ہے۔ اسی وجہ سے امریکہ، اسرائیل اور آل سعود رژیم یمن میں اپنی کٹھ پتلی حکومت برسراقتدار لانے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔
14۔ یمن کے خلاف جنگ کا نتیجہ یمنی عوام کیلئے انتھائی افسوسناک اور ھولناک انداز میں ظاھر ھو رھا ہے۔ اس وقت ھزاروں بیگناہ یمنی عوام اپنی جان سے ھاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ کروڑوں یمنی مسلمان وبائی امراض سے دوچار ہیں اور قحط کے باعث ان کی جانوں کو شدید خطرہ لاحق ہے۔
15۔ یمن کے خلاف جارحیت میں سعودی عرب کا ایک اسٹریٹجک اتحادی متحدہ عرب امارات ہے جو اس جنگ میں اس لئے شریک ہے تاکہ خطے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے ساتھ ساتھ یمن کے قدرتی ذخائر پر قبضہ کر سکے۔ یمن کی نابودی میں متحدہ عرب امارات کا کردار سعودی عرب سے کم نھیں ہے۔
تحریر: مجتبی باستان
یمن پر سعودی عرب کی چار سالہ فوجی جارحیت کے اثرات
- Details
- Written by admin
- Category: اھم خبریں
- Hits: 222

