حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے کھا ہے کہ علاقے اور دنیا میں شام کے حقیقی دوست موجود ہیں، جو کسی صورت بھی امریکہ، اسرائیل یا تکفیریوں کے ھاتھوں
شام کی حکومت کو ختم نھیں ھونے دیں گےانھوں نے کھا کہ شام کے صدر بشار الاسد کے مخالفین فوجی طاقت کے ذریعے ان کی حکومت نھیں گراسکتے۔
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل کا کھنا تھا کہ شام میں غیر ملکی حمایت یافتہ باغیوں اور ان کے علاقائی سرپرستوں نے اپنے مغربی حمایتیوں کو یقین دھانی کروائی تھی اور کھا تھا کہ وہ دو ماہ کے اندر شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کو گرا دینگے، لیکن دو سال گزر جانے کے باوجود وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب نھیں ھوسکے اور نہ ھی آئندہ وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ھو پائیں گے، سید حسن نصراللہ نے اس بات پر زور دیا کہ شام کے مسئلہ کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے، تاکہ شامی عوام کی مشکلات کو کم کیا جا سکے۔
المنار ٹی ویپر اپنے نشری خطاب میں شام میں سرگرم عمل تکفیریوں کی طرف حضرت زینب (س) کے روضے کو شھید کرنے کی دھمکی کی طرف اشارہ کرتے ھوئے ان کا کھنا تھاکہ بعض مسلح گروہ حضرت زینب (س) کے روضےسے چند سو میٹر کے فاصلے پر ہیں، جس کی وجہ سے وھاں کی صورتحال خاصی نازک ہے۔ تکفریوں نے دھمکی دی ہے کہ شام پر تسلط حاصل کرنے کی صورت میں حضرت زینب (س) کے روضے کو شھید کر دیں گے، اس طرح کے اقدام کے بھیانک نتائج برآمد ھوں گے۔ سید حسن نصر اللہ کا کھنا تھا کہ جو لوگ حضرت زینب (س) کےروضےکے دفاع کے لئے شھید ھو رھے ہیں وہ بلا شبہ ایک فتنے کو روکنے کی کوشش کر رھے ہیں، حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کا کھنا تھا کہ حضرت زینب (س) کے روضےکا دفاع اور تکفیریوں کو روضہ مبارک کے انھدام سے روکنا واجب ہے۔
انھوں نے واضح کیا کہ دمشق کے جنوب میں واقع سیدہ زینب (س) کے روضے کو نقصان پھنچا تو حالات قابو سے باھر ھوجائیں گے۔
حزب اللہ کے سربراہ نے اس انٹرویو میں مشرق وسطی بالخصوص شام کے حوالے سے چند نھایت اھم نکات کی طرف اشارہ کیا ہے شام میں اگر اسرائيل اور امریکہ کے حمایتی بشاراسد کی حکومت گرانے میں کامیاب ھوجاتے ہیں تو اس سے مشرق وسطی کی سیاست میں ایسی بنیادی تبدیلیاں آئيں گی جس سے ترکی سمیت کئي اسلامی ممالک بری طرح متاثر ھونگے ۔ حزب اللہ کے سربراہ نے اس انٹرویو میں شام میں موجود رسول اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی نواسی اور امام حسن و حسین (ع) کی ھمشیرہ گرامی حضرت زینب (ع) کے مزار کے بارے میں بھی نھایت اھم بات کی ہے آپ نے یہ بات زور دیکر کھی ہے کہ بشاراسد کے خلاف سرگرم عمل تکفیری گروہ نواسی رسول کا مزار مسمار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جسے حزب اللہ کے خلاف جنگ تصور کیا جائیگا۔
یہ بات تفصیل طلب نھیں ہے کہ جو تکفیری گروہ شام میں بشار اسد کے خلاف ہے یہ کون ہیں یہ وھی ہیں جنھوں نے افغانستان سے لیکر کئی مسلمان اور یورپی ممالک میں اسلام کے نام پر ایسی کاروائياں انجام دی ہیں جس سے اسلام کو ایک دھشت گرد مذھب پکارا جانے لگا ہے ان تکفیریوں کے غلط اقدامات اور مغرب کے متعصب میڈیا نے دھشت گردی اور اسلام کو ایک پلٹرے میں رکھ دیا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس تمام فتنے کی پیچھے اسلام دشمن عناصر کے ساتھ ساتھ بعض نام نھاد مسلمان حکمرانوں کا بھی ھاتھ ہے۔
آج سعودی عرب ، قطر ، ترکی اور اردن کے گٹھ جوڑ سے مشرق وسطی میں جس طرح امریکی ایجنڈے کو آگئے بڑھایا جارھا ہے اس کا نتیجہ انتھائي خطرناک برآمد ھوسکتا ہے ۔ مغرب اور اسلام کے لبادے میں چھپے بعض مغرب نواز حکمرانوں اور فتوی باز ملاؤں کی یہ خواھش ہے کہ اس علاقے کو نہ صرف سنی شیعہ فسادات میں تبدیل کردیا جائے کہ بلکہ اھلسنت کے اندر بھی ایسی تفریق پیدا کردی جائے کہ مسلمانوں کا یہ گروہ بھی کسی ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا نہ ھوسکے اھلسنت کے نام پر تیونس، مصر، لیبیا، عراق اور شام وغیرہ میں سرگرم عمل خوارج کا یہ فتنہ جس تیزی سے ان ممالک میں موجود رسول اکرم (ص) کے اصحاب اور اولیاء کرام کے مزارات کو مسمار کررھا ہے اس سے بعض اھلسنت کے دلوں میں یہ خوف پیدا ھورھا ہے کہ اگر یہ گروہ اسلامی بیداری کا باعث بنا ہے اور مصر، لیبیا اور تیونس وغیرہ میں تکفیری نظریات کے حامل افراد کی حکومت آگئی تو یہ حقیقی اھلسنت کو صفحہ ھستی سے مٹادیں گے تکفیری گروہ کے منفی اقدامات سے اھلسنت کے عوام الناس اسلامی بیداری سے مایوس ھونا شروع ھورھے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اسلامی بیداری کاباعث بنے وہ امریکہ ، اسرائيل اور مغرب کے مخالف تھے اور مسلمانوں کے اتحاد و وحدت پر یقین رکھنے والے تھے جبکہ اسلامی بیداری کو منحرف کرنے اور اسے بدنام کرنے والے یہ تکفیری گروہ نہ صرف اسرائيل کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں بلکہ اسرائیل کے مخالف کئی سالوں سے استوار حکومت شام کو کمزور کرنے کے درپے ہیں جو منصوبہ اسلامی نھیں بلکہ امریکی ایجنڈہ ہے۔