سعودی عرب نے استنبول میں اپنے قونصل خانے میں سینئر صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بارے میں جو رپورٹ جاری کی ہے اس میں بھت ساری کمیاں ہیں اور اس سے صاف ظاھر ھوتا ہے کہ سعودی انتظامیہ وقت حاصل کرنے کی ناکام کوشش کر رھا ہے ۔
یھی سبب ہے کہ اس کی رپورٹ پر کسی نے یقین نھیں کیا بلکہ اس سے نئے سوالات پیدا ھوگئے اور آزاد و شفاف عالمی تحقیقات کے مطالبے میں اضافہ ھو گیا۔ یہ دعوی کہ قونصل خانے کے اندر خاشقجی اور دوسرے افراد کے درمیان جھگڑا ھوا جس میں خاشقجی کی موت واقع ھوگئی، بڑا سطحی دعوی ہے اس سے کوئی بھی مطمئن ھونے والا نھیں ہے۔ جمال خاشقجی وھاں لڑائی کرنے تو نھیں گئے تھے کہ ان سے جھگڑا ھو جاتا ۔ وہ کچھ قانونی پیپر لینے گئے تھے اور اس میں کچھ سیکنڈ سے زیادہ کا وقت درکار نھیں ھوتا ۔ دوسری بات یہ کہ جھگڑے میں جو دوسرا فریق تھا اس میں 15 افراد شامل تھے ۔
18 افراد کو گرفتار کر لینا اور پانچ اعلی عھدیداروں کو برخاست کرنا، در حقیقت اصل مجرم کو بچانے کے لئے کچھ لوگوں کی قربانی کی کوشش ہے۔ کوشش کی جا رھی ہے کہ اس جرم میں سعودی ولیعھد پر ٹکی نگاھیں کسی اور جانب مڑ جائیں ۔ یہ ممکن ھی نھیں ہے کہ ڈپٹی انٹیلیجنس چیف جنرل احمد العسیری اپنی مرضی سے خاشقجی کے قتل کا منصوبہ تیار کر لیں ۔ اس کے لئے یقینی طور پر محمد بن سلمان نے ھدایت جاری کی تھی ۔ محمد بن سلمان کے میڈیا مشیر سعود القحطانی نے جو عھدہ چھوڑتے ھوئے خط لکھا اس میں بھی انھوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ وہ محمد بن سلمان کے حکم کے بغیر کچھ بھی نھیں کر سکتے ۔
سعودی عرب میں حکمراں خاندان کو آج ایسے چیلنج کا سامنا ہے جس سے اس شاھی خاندان کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔ اگر ھم کہ کھیں کہ یہ بحران پھلی اور دوسری جنگ یمن سے زیادہ نقصان دہ اور سنجیدہ ہے تو ھم نے کوئی مبالغہ نھیں کیا ہے۔ اس وقت سعودی عرب میں داخلی حلقے منقسم ہیں، سعودی عرب پر بھت زیادہ عالمی دباؤ ہے ۔ اب خاندان کا اجلاس بھی نھیں ھو رھا ہے ۔ بڑے شھزادے حاشیے پر ڈال دیئے گئے ہیں ۔ چھوٹے بڑے کسی کے لئے بھی اب فرمانروا سے ملاقات کر پانا بھت سخت کام ہے۔ خاندان کے بارے میں شاہ سلمان سے کوئی مشورہ کرنا، شھزادوں کے لئے بھی بھت سخت ھو گیا ہے ۔ اس کے لئے انھیں طویل انتظار کرنا پڑتا ہے ۔ اگر ملاقات کی اجازت ملتی ہے تو اس شخص کو سخت سیکورٹی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، وہ اپنے ساتھ اسلحہ یا موبائیل فون نھیں رکھ سکتا۔ یہ اطلاعات شاھی خاندان کے بے حد قریبی ذرائع نے دی ہیں ۔
ھمیں نھیں لگتا کہ سعودی عرب کے حالیہ حکومتی بیان سے جمال خاشقجی کے مسئلہ ٹھنڈا پڑ جائے گا۔ ابھی اس معاملے میں نئے نئے پھلو شامل ھوں گے جس طرح سے اس سے پھلے ھر دن نئے پھلو سامنے آئے ہیں ۔
حالانکہ سعودی عرب نے اس مسئلے کو دبانے کی بھرپور کوشش کی ہے یھاں تک کہ محمد بن سلمان نے بیان دیا کہ اپنا کام پورا ھو جانے کے بعد جمال خاشقجی قونصل خانے سے باھر چلے گئے تھے اور انھیں قونصل خانے کے اندر قتل نھیں کیا گیا۔
انھوں نے کھا کہ خاشقجی قونصل خانے کی عمارت سے واپس جا چکے ہیں تاھم یہ نھیں بتایا کہ وہ عمارت سے باھر زندہ گئے تھے یا مردہ حالت میں انھیں لے جایا گیا۔ ان کا پورا جسم باھر گیا تھا یا جسم کے ٹکڑے باھر گئے تھے؟
یہ جرم ایسا ہے کہ ٹی وی چینلز اور اخباروں کی سرخیوں سے ھٹ نھیں رھا ہے کیونکہ ترکی اس پورے مسئلے میں بڑی ھوشیاری اور مھارت کا مظاھرہ کرکے اسے سرخیوں میں باقی رکھے ھوئے ہے اور دوسری جانب سعودی عرب اس مسئلے میں بھت سے شواھد کو چھپا رھا ہے۔
سعودی عرب سے جو بیان آ رھا ہے وہ ٹکڑوں میں ہے جس سے کوئی بھی مطمئن نھیں ھو سکتا ۔ اب تک یہ بات صاف ھو چکی ہے کہ جمال خاشقجی کا گلا گھونٹ کر یا جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کئے جانے کی وجہ سے خالق حقیقی سے جا ملے مگر سب کو اس سے بڑے ثبوت یعنی جمال خاشقجی کی لاش سامنے آنے کا انتظار ہے اور یہ بھی دیکھنا باقی ہے کہ اس پر کس طرح کے نشان ہیں، اسے دفن کیا گیا ہے یا کھیں اور پھینک دیا گیا ہے۔
سعودی عرب 11 ستمبر کے دھشت گردانہ حملہ ھونے کے بعد پیسے دے کر اور ھتھیاروں کے سودے کرکے خود کو بچانے میں کامیاب ھو گیا تھا تاھم خاشقجی والے بحران سے اس کا ابھر پانا بھت سخت لگتا ہے کیونکہ یہ ایک تو امریکا کا داخلی مسئلہ بھی بن گیا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ عالمی مسئلہ بھی بن گیا ہے۔ امریکا کے انتخابات میں بھی اس مسئلے پر توجہ دی جا رھی ہے۔ اس مسئلے نے امریکا اور عالمی میڈیا کو متحد کر دیا ہے۔ کون امید کر سکتا تھا کہ سی این این اور اس کا حریف چینل فاکس نیوز اس مسئلے میں ایک ھی پلیٹ فارم پر نظر آئیں؟
ٹرمپ کی کوشش تھی کہ خاشقجی کے مسئلے میں سعودی عرب سے وہ جھاں تک ھو سکے اقتصادی فائدہ اٹھا لیں ۔ اس حوالے سے ان کے متعدد بیان مثال کے طور پر پیش کئے جا سکتے ہیں اور حال ھی میں انھوں نے کھا کہ سعودی عرب کا بیان مطمئن کرنے والا ہے اور سعودی عرب نے یہ پھلا اچھا قدم اٹھایا ہے ۔ اس سے اندازہ ھو سکتا ہے کہ بعد میں دوسرے اقدامات بھی کئے جائیں گے ۔ اب سوال یہ پیدا ھوتا ہے کہ بعد میں سعودی عرب کو کیا اقدامات کرنے ہیں؟ کیا سعودی عرب کی قیادت کے ڈھانچے میں تبدیلی ھوگی اور اس تبدیلی کا دائرہ محمد بن سلمان تک پھنچے گا یا نھیں؟
ایسا محسوس ھوتا ہے کہ لاکربی واقعے والے حالات پھر سے بن رھے ہیں ۔ یعنی عالمی تحقیقات شروع ھونے والی ہے تاھم فرق یہ ہے کہ اس بار اصل ملزم کی گردن پھنسی ہے، قربانی کے بکرے کو کافی نھیں تصور کیا گیا ہے۔ اس لئے اب حالات بدل چکے ہیں ۔ عالمی انصاف عدالت میں مقدمہ بھی شاید اس سلسلے کی آخری کڑی ھوگی ۔
سعودی حکام آپریشن انجام دینے میں تو کامیاب ھوگئے ویسے یہ حصہ آسان بھی تھا تاھم دوسرے حصے یعنی مسئلے پر پردہ ڈالنے میں کامیاب نھیں ھوئے ۔
خاشقجی قتل کیس، سعودی عرب کی رپورٹ پر کس کس کو یقین؟؟؟
- Details
- Written by admin
- Category: اھم خبریں
- Hits: 146