آج بھت کم افراد کو اس بات میں شک ھوگا کہ مخالف سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے ذمہ دار ایک گروہ کو قرار دیں تاکہ قتل کے اصل مجرم سے رای عامہ کی توجہ ھٹا دی جائے۔
سعودی عرب کے اٹارنی جنرل نے اپنے حالیہ بیان میں یہ اعتراف کیا کہ صحافی جمال خاشقجی کا قتل ایک منظم پروگرام کا حصہ تھا اور یہ قتل عمدا تھا۔
سعودی عرب کے اٹارنی جنرل کا حالیہ بیان اور سعودی حکام کے سابق بیانات پر توجہ دینے سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ 20 یا 22 دنوں کے اندر سعودی حکام نے اتنی تیزی سے بیانات بدلے اتنی جلدی سے گرگٹ بھی رنگ نھیں بدلتا۔ سعودی حکام کے گزشتہ اور اب ان کے بیانات میں اتنا تضاد پایا جاتا ہے کہ سعودی حکام کس طرح کی بیان بازی کر رھے ہیں اور میڈیا کے رخ کو کس سمت لے جانے کی کوشش کر رھے ہیں۔
سعودی حکومت نے باضابطہ طور پر اعتراف کر لیا ہے کہ 2 اکتوبر سے لاپتہ صحافی جمال خاشقجی کی موت ھوگئی ہے۔ ریاض حکومت نے اپنے بیان میں دعوی کیا کہ استنبول میں قونصل خانے کی عمارت کے اندر ایک درجن سے زائد سعودی حکام کی جمال خاشقجی سے لڑائی ھوگئی جس کے دوران جماش خاشقجی کی موت واقع ھوگئی ۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ سعودی صحافی کے قتل کے بارے میں سعودی حکام مسلسل انکار کرتے رھے، سعودی حکام کا دعوی تھا کہ جمال خاشقجی قونصل خاناے میں آئے تو تھے لیکن تھوڑی دیر بعد وھاں سے چلے گئے۔ ان کی کھانی میں شروع سے ھی کمی نظر آئی ۔
خاشقجی کے مسئلے میں طرح طرح کی کھانیاں سامنے آرھی تھیں کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے سربراہ نے کھا کہ انھوں نے جمال خاشقجی کی چیخ و پکار کا آڈیو ٹیپ سنا اور اس کی رپورٹ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو روانہ کر دی ہے۔
سعودی عرب کا اٹارنی جنرل مذکورہ بیان دینے پر مجبور ھوا جس میں اس نے اعتراف کیا کہ صحافی جمال خاشقجی کا قتل عمدا ھوا۔ ابھی یہ نھیں کھا جا سکتا کہ سعودی عرب اپنے اسی بیان پرقائم رھے گا، کیونکہ ھو سکتا ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل کے بارے میں نئی چيزیں سامنے آنے کے بعد وہ پھر سے بیان سے عقب نشینی کر دے اور پھر کوئی نیا ڈرامہ پیش کر دے۔
جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے بن سلمان کے رویے سے پتہ چلتا ہے کہ جوان ولیعھد اس معاملے سے خود کو کنارے کرنے کے لئے بھت زیادہ کوششیں کر رھے ہیں تاھم یہ مسئلہ ان کا پیچھا نھیں چھوڑ رھا ہے۔ بن سلمان کو جب یہ محسوس ھونے لگا کہ مخالف صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں سعودیوں کے ملوث ھونے سے انکار کرنے کے تمام راستے بند ھوگئے تو انھوں نے دھشت گرد ساتھیوں کو جیل میں بھرنا اور ان پر مقدمہ چلانا شروع کر دیا۔
قابل ذکر ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل کے نئے پھلو سامنے آنے کے بعد آل سعود حکومت نے شدید عالمی دباؤ میں آکر 18 افسروں اور عھدیداروں کو گرفتار کر لیا جس میں سعود القحطانی اور احمد العسیری بھی شامل ہیں، یھاں پر یہ بھی امکان ظاھر کیا جا رھا ہے کہ ان افراد کی گرفتاری اس لئے انجام پائی تاکہ اصل قاتل کا نام سامنے نہ آنے پائے اور یہ افراد اپنے منہ نہ کھولنے پائے۔
در حقیقت بن سلمان اپنے دھشت گرد ساتھیوں کو اکیلا چھوڑ کر چلے گئے کیونکہ کچھ سؤالوں کا جواب آج تک کسی کو بھی نھیں مل سکا۔ پھلا یہ کہ بن سلمان جب یہ دعوی کر رھے ہیں کہ علاقے کی سیکورٹی کی نبض ان کے ھاتھ میں ہے اور جیسے وہ ارادہ کریں گے نا امنی، ایران سمیت دیگر ممالک میں منتقل کر سکتے ہیں، وہ کس طرح اپنے ملک کی سیکورٹی میں لاچار ہیں ۔ وہ یہ کس طرح دعوی کر سکتے ہیں کہ ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور انھیں اچھے اچھے مشورے دینے والوں نے انھیں اطلاع دیئے بغیر مخالف صحافی کو قتل کر دیا؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر کھا جائے کہ گرفتار دھشت گرد گروہ اس قتل کے لئے بن سلمان اور ان سے شخصی ھدایت نہھیں لی، تو کس مقصد کے تحت اس قتل کو انجام دیا گیا، وہ ھدف شخصی تھا یا عمومی؟ محمد بن سلمان سے سب سے قریبی کون ہے قحطانی یا عسیری؟
بھرحال گرفتار مشکوک افراد، اس وقت ٹائم بم کی طرح ہیں اور ان میں سے کسی ایک کی آزادی، بھت بڑا دھماکہ کر سکتی ہے اور یہ بن سلمان کے لئے ایک خودکش حملہ ھوگا۔
دوست دوست نہ رھا، محمد بن سلمان کی ساتھیوں کے ساتھ خیانت
- Details
- Written by admin
- Category: اھم خبریں
- Hits: 144