اربعین محض ایک مذھبی روداد کا نام نھیں جیسا کہ عاشورا بھی محض مذھبی واقعہ نہ تھا۔ اربعین ایک لحاظ سے عاشورا کا تسلسل ہے؛ اسی عقیدے کا تسلسل جو آزادی اور ظلم کے سامنے سرتسلیم خم نہ کرنے پر مبنی ہے۔ اس عقیدے کا تسلسل کہ آزادی کو دین داری پر فوقیت حاصل ہے۔ دوسری طرف اربعین بذات خود ایسے طور طریقے سے وفاداری کے اظھار کا نام ہے جو نہ صرف چالیس دن بلکہ چالیس برس بھی جاری و ساری رھے گا۔ لیکن عاشورا کی میراث صرف اسی حد تک محدود نھیں ہے۔
عاشورا اسلام میں سیاست کی تعریف میں اھم موڑ تھا اور ہے۔ دس محرم سن 61 ھجری کی ظھر کے بعد عاشورا اپنے تمام اجزا اور عناصر کے ھمراہ ایک ثقافتی محور کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ امام حسین علیہ السلام کی تحریک، ان کے اصحاب، ان کے عاشورا اور عشرہ محرم الحرام میں برپا ھونے والی عزاداری سے پیدا ھونے والی ثقافت کے اثرات نہ صرف شیعہ علاقوں میں منعقد ھونے والی مختلف روایتی عزاداری پر ظاھر ھوئے بلکہ ادبیات، فن اور حتی ان سے بڑھ کر سماجی طور طریقوں میں بھی ظاھر ھوئے ہیں۔
گذشتہ چودہ صدیوں کے دوران عاشورہ اور اربعین، یہ دو اھم رودادیں بھت پھل پھول گئی ہیں اور موجودہ حالات پر اثرانداز ھو رھی ہیں۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی تحریک میں محرم الحرام 1961ء میں انتھائی تیزی آئی۔ معروف انقلابی اسکالرز جیسے علی شریعتی اور شھید مرتضی مطھری کی زبان سے بیان ھونے والی محرم اور عاشورہ کی تعلیمات نے ایرانی عوام میں انقلابی سوچ پیدا کرنے میں بھت اھم کردار ادا کیا۔ حتی ایران میں سرگرم سوشلسٹ سوچ رکھنے والے گروہ بھی عدالت علی (ع) اور قیام حسین (ع) کے نعرے لگا کر مسلمان عوام کی توجہ حاصل کرنے اور انھیں اپنی طرف کھینچنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی عاشورائی ثقافت کی بنیاد پر عراق کی تھونپی گئی آٹھ سالہ جنگ میں "مقدس دفاع" کی ثقافت معرض وجود میں آئی۔ کربلا میں حق اور باطل کے درمیان معرکہ آرائی کو بنیاد بنا کر اسلامی انقلاب کے دفاع کو مقدس ظاھر کیا گیا اور شھادت ایک مثبت قدر بن کر سامنے آئی۔
آج جبکہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کو چالیس برس گزر چکے ہیں، عاشورہ اور اربعین اس کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی ڈھانچے میں رچ بس چکا ہے۔ اگر کبھی کھا جاتا تھا کہ محرم اور صفر نے اسلام کو زندہ رکھا ہے تو آج یہ کھنا درست ھو گا کہ محرم اور صفر نے اسلام کے علاوہ اسلامی جمھوری نظام کو بھی زندہ رکھا ہے۔ آج عاشورہ اور اربعین پوری اسلامی دنیا پر گھرے اثرات ڈال رھا ہے۔ عاشورہ اور اربعین کے موقع پر عالم اسلام میں اتحاد اور وحدت کی فضا قائم ھو جاتی ہے۔ پوری دنیا سے نہ صرف مسلمان بلکہ ھر دین سے تعلق رکھنے والے افراد امام حسین علیہ السلام کی محبت میں کربلا کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں۔ گویا عالمی سطح پر ایک نیا معاشرہ تشکیل پا رھا ہے۔ ایسا معاشرہ جس کی بنیاد امام حسین علیہ السلام کی محبت اور عشق پر استوار ہے۔ اس معاشرے میں انسانی اقدار کو بنیادی اھمیت حاصل ہے۔ ایثار اور فداکاری کا وہ جذبہ جس کا بے مثال نمونہ خود امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں پیش کیا آج کربلا کی محوریت میں تشکیل پانے والے اس معاشرے پر حکمفرما ہے۔
عاشورہ اور اربعین کے ذریعے معرض وجود میں آنے والا یہ معاشرہ ایک نئی ثقافت اور تھذیب و تمدن کی بنیاد بھی رکھ رھا ہے۔ یہ نئی ثقافت انسانی اور اسلامی بھائی چارے، محبت، ایثار، خدمت کے جذبے اور باھمی احترام پر استوار ہے۔
آج جھاں عالمی استعماری قوتیں دین مبین اسلام کے خلاف شیطانی سازشوں میں مصروف ہیں اور داعش جیسے وحشی گروہ تشکیل دے کر اور انھیں اسلامی لبادہ اوڑھا کر اسلام کے خوبصورت چھرے کو مسخ کر کے پیش کرنے کیلئے کوشاں ہیں وھاں دوسری طرف اربعین کا عظیم اجتماع اسلام کا حقیقی چھرہ آشکار کر رھا ہے۔ استعماری قوتیں دنیا میں دین مبین اسلام کی جانب تیزی سے بڑھتے ھوئے رجحانات سے شدید خوفزدہ ہے۔
امریکہ اور مغربی طاقتیں محسوس کر رھی ہیں کہ حتی مغربی ممالک میں عوام تیزی سے اسلام کی طرف کھنچے چلے آ رھے ہیں لھذا انھیں اپنی بقا خطرے میں پڑتی نظر آ رھی ہے۔
یھی وجہ ہے کہ انھوں نے اسلام کے خلاف وسیع پیمانے پر پروپیگنڈے کا منصوبہ تیار کیا جس کے تحت داعش جیسے غیر انسانی دھشت گرد گروہ تشکیل دیئے گئے اور انھیں اسلامی رنگ دے کر پیش کیا گیا۔ یھی وجہ ہے کہ مغربی میڈیا عاشورہ اور اربعین کے موقع پر کربلا میں برپا ھونے والے عظیم اجتماعات کا مکمل بائیکاٹ کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن حقیقت تو چھپانے سے چھپتی نھیں۔ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے حقیقت تو تبدیل نھیں ھو جاتی۔
ان شاءاللہ بھت جلد اربعین کی بنیاد پر تشکیل پانے والی ثقافت اور تھذیب و تمدن طاغوتی طاقتوں کو اپنے سیلاب میں بھا لے جائے گی۔
تحریر: رضا دھکی
معاشرہ، ثقافت، سیاست اور اربعین
- Details
- Written by admin
- Category: اھم خبریں
- Hits: 216