www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

016064
تل ابیب یونیورسٹی کے پروفیسر اور اسرائیلی تجزیہ نگار ایال زیسر کا کھنا ہے کہ اسرائیل نے شام میں ایران کی موجودگی پر روک لگائے میں تاخیر کر دی ۔
جب شامی فوج نے جولان کی پھاڑیوں کے کچھ حصوں کو تکفیری دھشت گردوں کے قبضے سے آزاد کرایا تو اس وقت اسرائیل کو چاھئے تھا کہ وہ مداخلت کرتا اور شامی فوج کو یہ آپریشن کرنے سے روک دیتا ۔
بشار اسد نے تل ابیب کی کوئی بھی شرط قبول کئے بغیر ھی جولان کی پھاڑی والے علاقے کو واپس لے لیا جو 2011 کے بعد شامی فوج کے قبضے سے نکل گئے تھے ۔
اسرائیل ٹو ڈے اخبار میں اپنے مقالے میں زیسر نے لکھا کہ اسرائیل کو چاھئے کہ اب بھی شام میں ایران اور حزب اللہ کو اپنی پوزیشنیں مزید مضبوط کرنے کا موقع نہ دے تاکہ اسرائیل کے لئے حالات مزید خراب نہ ھوں ۔
شامی امو کے ماھر کھے جانے والے زیسر کا کھنا ہے کہ ایران کے اثر و رسوخ کو روکنے کے لئے وسیع شجاعانہ فیصلے کی ضرورت ہے تاھم ساتھ ھی یہ بھی توجہ رکھنی ھوگی کہ مشرق وسطی میں کوئی نئی جنگ کا آغاز نہ ھونے پائے ۔ زیسر کا خیال ہے کہ اسرائیلی حکومت کی پوزیشن کمزور ھوگئی ہے ۔
زیسر ھی نھیں بھت سے تجزیہ نگار اس وقت یہ اعتراف کر رھے ہیں کہ اسرائیل اپنی پالیسیوں کی وجہ سے بری طرح محاصرے میں آ گیا ہے ۔ اسرائیل نے تشدد اور غاصبانہ پالیسیوں کے ذریعے وجود میں آنے والے اپنے ناجائز وجود کو باقی رکھا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اس طرح کی پالیسیوں پر رد عمل بھی ضرور ھوتا ہے ۔
اس وقت غزہ کے حالات ایسے ہیں کہ وھاں کے باشندے فلسطینی ھر جمعے کو مظاھرے کر رھے ہیں جن کے اھل خانہ کو صھیونی حکومت ان کے گھروں سے بے دخل کرکے ان کے گھروں میں صھیونیوں کو آباد کر دیا ہے ۔
شام کے محاذ پر اسرائیل کی پوزیشن بھت خراب ہے ۔ شام اس سازش کو ناکام بنانے میں کامیاب ھو گیا ہے جو امریکا، برطانیہ، فرانس جیسے ممالک نے ترکی، قطر اور سعودی عرب جیسے علاقائی ممالک کے ساتھ مل کر تیار کی تھی ۔
اسرائیل کے تعلقات اردن اور مصر کی حکومتوں سے تو ہیں تاھم ان دونوں ممالک کے عوام اسرائیل کو آج بھی غیر قانونی حکومت مانتے ہیں ۔ ایسے حالات میں اسرائیل کے لئے اپنا وجود باقی رکھ پانا سخت ھو گیا ہے ۔ یہ صورتحال اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کی پالیسی کی وجہ سے پیدا ھوئی ہے۔
امریکا کے سابق صدر باراک اوباما کو اسرائیل کی اس حالت کا پھلے ھی اندازہ ھو گیا تھا اسی بنا پر انھوں نے 1967 کی سرحدوں پر اسرائیل اور فلسطین کے قیام کی بات کھی تھی جس کی صھیونی وزیر اعظم نتن یاھو نے مذمت کی تھی ۔ نتن یاھو توسیع پسندی کی پالیسی پر گامزن رھے اور انھوں نے اسرائیل کو ایسی حالت میں پھنچا دیا کہ اسرائیل کا وجود باقی رہ پانا سخت ھو گیا ہے۔

Add comment


Security code
Refresh