www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

926801
خیبر صھیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، گزشتہ بیس دنوں میں اسرائیل کے علاوہ تقریبا پوری دنیا نے ھم صدا ھو کر آل سعود کو لعنت ملامت کی اور خوفناک جرائم کے ارتکاب کی وجہ سے ان کی مذمت کی۔
سعودی صحافی جمال خاشقجی کی فائل بظاھر ترکی کی پارلیمنٹ میں تقریبا ھمیشہ کے لیے بند ھو گئی اور یہ احتمال دیا جا رھا ہے کہ اس کے بعد اس موضوع کو اس سے زیادہ مورد گفتگو نھیں بنایا جائے گا۔
بن سلمان اگر چہ اس جرم کے اصلی مجرم تھے لیکن جیسا کہ امریکہ چاھتا تھا نہ انھیں عدالت کے کٹھہرے میں لایا گیا اور نہ ان کے سیاسی مستقبل کو کوئی صدمہ پھنچنے دیا۔
ایسے حالات میں بس یہ دیکھتے رھیں کہ یہ بپھرا ھوا اور بے لگام بھیڑیا امریکی حمایتوں کے زیر سایہ علاقائی اور عالمی سطح پر کیسی کیسی تباھی پھیلاتا اور کیسے کیسے خوفناک جرائم کا ارتکاب کرتا پھرتا ہے۔ اور دنیا اس کے بعد اس “ھٹلر زمانہ” اور “۲۱صدی کے صدام” کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتی ہے؟
یہ سب باتیں اپنی جگہ ہیں لیکن اصلی سوال جو ھمارے پیش نظر ہے وہ یہ ہے کہ گزشتہ ۲۰ دنوں میں صھیونی ریاست نے جمال خاشقجی کے قتل کیس کے حوالے سے کیوں زبان نھیں کھولی اور مکمل خاموشی کو ھرچیز پر ترجیح دی؟
اس سوال کے جواب کو ھر چیز سے پھلے خود اسرائیلی اخبار “ھاآرتض” میں تلاش کریں اس اخبار نے لکھا: ۵۰ سال دعا کی کہ کوئی بن سلمان جیسا برسر اقتدار آئے جو تل ابیب کے ساتھ کئے جانے والے معاھدوں پر دستخط کرے۔
ھاآرتض کی اس تحریر پر غور کرنے سے معلوم ھوتا ہے کہ اگر چہ بن سلمان پھلے وہ شخص نھیں ہیں جنھوں نے اسرائیل کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا ھو بلکہ ان سے پھلے بھی کم از کم دو تین تاریخی ادوار میں ایسا اتفاق ھوا ہے لیکن اس صھیونی ریاست کی منحوس حیات کی ۷۰ ویں دھائی میں بن سلمان نے جو گرین سگنل دکھائے ہیں وہ بھی ایسے حالات میں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرامپ مسئلہ فلسطین کو ھمیشہ کے لیے صفحہ تاریخ سے مٹانا چاھتے ہیں، انتھائی خطرناک ہیں اور یہ عالم اسلام و آزادی قدس کی راہ میں بھنے والے خون شھداء کے ساتھ تاریخ کی سب سے بڑی خیانت ہے۔
موجودہ حالات میں بلکہ اس کے بعد بھی امریکہ کی طرف سے خاشقجی نام کی چھڑی ھمیشہ بن سلمان کے سرپر سایہ فگن رھے گی اور امریکہ پھلے سے کھیں زیادہ اپنے مجوزہ امن منصوبے “صدی کی ڈیل” کو عملی جامہ پھنانے میں آسودہ خاطر ھو گیا ہے چونکہ اس نے سعودی قاتل ولیعھد کی بادشاھی کی ضمانت جو اپنے ذمہ لی ہے اس کی اجرت سعودی ولیعھد سے وصول کر مسئلے فلسطین کو یکسرے کرنے میں خرچ کرے گا۔
واضح ہے کہ ایسے حالات میں اسرائیل کو سعودی ھٹلر کے خونریز کارناموں کے مقابلے میں خاموشی ھی اختیار کرنا چاھیے اور پوری دنیا کے مخالف سمت اپنی گنگا بھانا چاھیے چونکہ امریکی حکومت نے سعودی ولیعھد کے کارناموں کی توجیہ کرنے اور صھیونی ریاست نے خاموشی اختیار کرنے کے بدلے بن سلمان کے سامنے کئی دیگر فائلیں کھول کر رکھی ہیں اور بعد از ایں، ان سے انھیں ان فائلوں کو پایہ تکمیل تک پھنچانے کی امید وابستہ ہے۔
سب سے پھلی فائل جو بن سلمان کے سامنے کھل کر آئی ہے وہ پھلی فرصت میں “صدی کی ڈیل” کے منصوبے کو عملی جامہ پھنانا ہے۔
دوسرے مرحلے میں بن سلمان کو امریکہ سے اسلحہ خریدنا ہے (اور اس کا استعمال علاقے کے اسلامی ممالک پر کرنا ھو گا) اور عالمی مارکیٹ میں تیل کی کمی کو پورا کر کے ایرانی تیل کی ضرورت کو کم کرنا ہے، تاکہ ڈونلڈ ٹرامپ کے غیر سنجیدہ منصوبوں کی وجہ سے امریکی معیشت کو جو دھچکا لگا ہے وہ پورا ھو جائے۔
تیسرا اھم کام جو بن سلمان کو امریکہ اور اسرائیل کے لیے کرنا ھو گا وہ یہ ہے کہ علاقے میں اسرائیل کی سرپرستی میں ایران مخالف اتحاد قائم کرے اور صھیونی ریاست کو تنھائی سے نکالے۔
اور چوتھی ذمہ داری سعودی ولیعھد کی ایران مخالف عرب نیٹو کی تشکیل ہے اور پانچواں اقدام عالم اسلام اور اسرائیل کے درمیان روابط کو معمول پر لانے کے لیے مسلمانوں میں دراڑیں پیدا کرنا ہے۔
واضح رھے کہ خاشقجی کیس کے بعد بن سلمان عالم اسلام بلکہ پوری دنیا میں ایک قاتل اور مجرم شخص کے عنوان سے پھچانے گئے ہیں اور ان کے پاس سعودی عرب کی بادشاھی اور خادم حرمین کے عھدے پر فائز ھونے کے لیے کوئی چانس باقی نھیں رھا ہے مگر اسی صورت میں وہ اس عھدے پر براجمان ھو سکتے ہیں کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے پیش کردہ منصوبوں کو عملی جامہ پھنائے۔
اسرائیل نے خاموشی اختیار کی لیکن اس کی خاموشی کے پیچھے بھت سارے راز پوشیدہ ہیں۔
تحریر: ابورضا صالح

Add comment


Security code
Refresh