گزشتہ دنوں میں دنیائے عرب میں باقی بچی ساکھ اور عزت پر تین زوردار وار ھوئے ہیں۔ پھلا وار تب ھوا جب اسرائیلی کھلاڑیوں کی ٹیم قطر کے سفر پر گئی ۔
دوسرا وار تب ھوا جب اسرائیل کی ایک اور اسپورٹ ٹیم وھاں کی ثقافتی وزیر ریگیو کی قیادت میں ابو ظبی گئی جو عربوں کے بارے میں بڑا منفی اور متشدد نظریہ رکھتی ہیں ۔ تیسرا وار جو سب سے زیادہ المناک تھا وہ اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاھو کے عمان دورہ تھا۔ جھاں نتن یاھو اور ان کے کابینہ کا گرم جوشی سے استقبال کیا گیا اور سلطان قابوس نے ان سے ملاقات کی ۔
یہ اسرائیل سے دوستی کے لئے امریکا کے دباؤ میں شروع کیا جانے والا منظم آپریشن ہے اس کا فلسطین - اسرائیل امن سے کوئی واسطہ نھیں ہے۔ یہ اسرائیل اور عرب حکومتوں کے درمیان مفت دوستی کا پروگرام ہے جس کے تحت بعد میں ڈیل آف سنچری کے باقی بچے آرٹیکلز کو ان حالات میں نافذ کیا جانا ہے جب دنیائے عرب میں ھر طرف افراتفری کی حالت ہے تاکہ فلسطین کے مسئلے کو ھمیشہ کے لئے دفن کر دیا جائے، عرب – اسرائیل تنازع ختم ھو جائے اور اسرائیل کو مشرق وسطی کی قوم کی طرح اعتراف کر لیا جائے ۔
یہ اس طولانی سلسلے وار منصوبے کی اھم کڑی ہے جس کے تحت عراق، شام، لیبیا اور یمن کو تباہ کیا گیا، مصر کو بھوک کے دھانے پر دھکیل دیا گیا۔ اس ممالک کو الگ الگ بھانوں سے تباہ کئے بغیری اس منصوبے کو عملی جامہ پھنا پانا ممکن نھیں تھا ۔
جب 1996 میں قطر اور عمان نے اپنی دار حکومتوں میں اسرائیل کا تجارتی نمائندہ دفتر کھولا تھا اور انھوں نے اسرائیلی حکام کا استقبال کیا تھا جیسے 1994 میں مسقط نے اسحاق رابن کا استقبال کیا اور 1996 میں مسقط اور دوحہ دونوں شیمون پیرز کا استقبال کیا تھا، اس وقت ان دونوں ممالک نے کھا تھا کہ ھم فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان امن کی ترغیب اور مذاکرات کے لئے مناسب ماحول بنانے کے لئے ایسا کر رھے ہیں خاص طور پر اس لئے بھی کہ 1993 میں فلسطینی انتظامیہ نے اسرائیل کے ساتھ اوسلو معاھدہ کر لیا تھا۔ اس کے بعد اردن نے بھی اسرائیل کے ساتھ وادی عربا کا معاھدہ کر لیا تھا۔
قابل توجہ ہے کہ اکتوبر 2000 میں یعنی 18 سال پھلے عمان نے ایک قابل تعریق قدم اٹھاتے ھوئے اسرائیل کے تجارتی نمائندے کے دفتر کو بند کر دیا تھا۔ اس وقت عمان کی وزارت خارجہ نے 12 اکتوبر 2000 کو جاری بیان میں کھا تھا کہ ھم نے اسرائیل کا تجارتی دفتر اس لئے بند کر دیا کہ ھمیں مسئلہ فلسطین کی حمایت جاری رکھنے کی خواھش ہے، ھم فلسطینی قوم کے قانونی اور مستقل مفاد کے حامی ہے۔
بیان میں یہ بھی کھا گیا ہے کہ عمان ھمیشہ سے جامع اور منصف امن پر تاکید کرتا رھے گا لیکن ان معیارات کی بنیاد پر جو مظلوم کی حفاظت کرتے ھوں، مذھبی مقامات کی سیکورٹی کو یقینی بناتے ھوں اور حق داروں کو ان کا حق دلائیں، اب سوال یہ ہے کہ اس وقت ایسا کون سی تبدیلی رونما ھوگئی ہے جو عمان نے یہ قدم اٹھایا ہے۔
عمان اور قطر نے فلسطینی انتظامیہ کے قبضے والے علاقوں پر اسرائیل کی جارحیت، اسرائیلوں کے ھاتھوں فلسطینیوں کا خون بھائے جانے کی وجہ سے اسرائیلی تجارتی دفتر بند کیا تھا مگر آج جب اسرائیل سے دوستی کی مھم کا آغاز کیا گیا ہے تو حالت یہ ہے کہ اسرائیلی فورسز اسی طرح قتل عام کر رھی ہیں، ان کے جرائم مزید بدتر ھوگئے ہیں۔
جس دن نتن یاھو، ان کی بیوی اور موساد کے سربراہ عمان پھنچے اسی دن غزہ میں اسرائيلی فوجیوں نے 6 مظلوم فلسطینوں کو قتل کر دیا۔ اس وقت اس علاقے میں 20 لاکھ مسلمان بھوک اور بیماریوں کی زد پر ہیں ۔ کوئی امن روڈ میپ نھیں ہے جس کی حمایت کرنے کے لئے عمان، قطر اور متحدہ امارات آگے آئے ہیں۔ ان ممالک نے مظلوموں کی حمایت کے کے حوالے سے جن معیار کا ذکر کیا تھا کہ ان میں سے کسی کابھی احترام نھیں کیا جا رھا ہے۔
اسرائیل نے بیت المقدس کو یھودی رنگ دے دیا، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بیت المقدس کو دنیا بھر کے یھودیوں کا دارالحکومت اعلان کر چکے ہیں۔ امرکی صدر کے خـصوصی نمائندے جیسن گرین بلاٹ جو ایک ھفتے بعد فلسطین پھنچنے والے ہیں وہ اپنے شانے پر مسئلے فلسطین کی لاش لے جا رھے ہیں جسے وہ رام اللہ میں ھمیشہ کے لئے دفن کر دینا چاھتے ہیں اور فلسطینی پناہ گزینوں سے ملک واپسی کا حق، ھمیشہ کے لئے سلب کر لینا چاھتے ہیں ۔
عمان کے وزیر خارجہ یوسف بن علوی نے کھا کہ نتن یاھو کا دورہ جس سے پھلے فلسطینی انتظامیہ کے سربراہ محمود عباس نے عمان کا دورہ تھا، دو طرفہ تعلقات کے تحت ھوئی ہے، یہ سفر ان دونوں کی درخواست پر ھوئی ہے، ھم اس معاملے میں ثالثی نھیں کر پا رھے ہیں، ثالثی کی حیثیت سے امریکا کا کردار اصل ہے اور اسرائیل مشرق وسطی کے علاقے میں ایک ریاست ہے۔
اس بیان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مسئلہ صرف سفر تک محدود نھیں ہے بلکہ اس کا بھی امکان ہے کہ نتن یاھو پھر مسقط کے سفر پر جائیں اور وھاں اسرائیلی سفارتخانے کا افتتاح کریں اور یہ بھی امکان ہے کہ اسرائیل کے سفارتخانے دوحہ اور ابو ظھبی میں بھی کھل جائیں بلکہ ممکنہ طور پر ریاض میں بھی اسرائیلی سفارتخانہ کھل سکتا ہے۔ دو طرفہ تعلقات کی باتیں تو ھو ھی رھی ہیں ۔ دسیوں لاکھ عرب شھری عمان سے محبت کرتے ہیں کیونکہ اس نے علاقے میں زیادہ تر جنگوں اور سازشوں سے خود کو الگ رکھا تھا۔ خاص طور پر یمن اور شام میں جنگ میں اس نے کسی بھی فریق کا ساتھ نھیں دیا۔ اس سے پھلے جنگ عراق کے مسئلے میں بھی اس کا یھی اسٹینڈ تھا۔ اس ملک نے ایران سے بھی تعادل برقرار رکھے اور تھران کو پریشان کرنے والی امریکی پالیسیوں کا کبھی ساتھ نھیں دیا۔ تاھم ھم یہ نھیں سمجھ پا رھے ہیں کہ عمان نے جنگی جرائم نتن یاھو کا استقبال کرکے کرڑوں مسلمانوں کی اس ملک سے محبت داؤں پر کیوں لگا دی؟ وہ بھی ایسے وقت میں جب مسئلہ فلسطین فیصلہ کن مراحل میں پھنچ چکا ہے، فلسطینی عوام کی ناکہ بندی کر لی گئی ہے اور فلسطینیوں کا قتل عام کیا جا رھا ہے۔
ھمیں تو یہ امید تھی کہ نتن یاھو عرب ممالک کے اپنے پھلے سفر میں ریاض جائیں گے کیونکہ دونوں کے درمیان کافی نزدیکی پیدا ھوچکی ہے ۔ اس لئے ھمیں زیادہ جھٹکا لگا ہے۔ ھم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سفر دوسرے سفر کا مقدمہ ہے جس میں اسرائیلی سفارتخانے کھلیں گے، سیکورٹی معاھدے ھوں گے جو شاید فلسطینیوں کے خلاف بھی ھوں گے۔ اسرائیلی سے دوستی کی مھم پھلے دور سے شروع ھوتی ہے پھر مرکزی علاقے تک پھنچتی ہے۔ مراکش اور موریتانیا پر اسرائیل کی خصوصی توجہ دینے کا راز بھی ممکنہ طور پر ھی ہے۔
ھم اسرائیل سے دوستی کی ھر شکل کی مذمت کرنے میں ایک لمحے کے لئے بھی دریغ نھیں کریں گے۔ ھم فلسطینی انتظامیہ کی مذمت کرتے ہیں جس نے اسرائیل سے دوستی کا آغاز کیا تھا اور اسرائیل سے دوستی کے خواھشمند ممالک کے لئے اس کا دروازہ پوری طرح کھول دیا تھا ۔ تاھم یہ بات واضح ھونی چاھئے کہ فلسطینی انتظامیہ فلسطین کےعوام کی نمائندگی نھیں کرتی ۔ فلسطینی عوام اپنے حقوق سے پسپائی نھیں کریں گے چاھے اس مسئلے پر کچھ دوست ممالک غداری کی کیوں نہ کریں ۔
ھمیں افسوس ہے کہ ھم سے بھائی چارے کا رشتہ رکھنے والے ممالک نتن یاھو کی جانب بھاگ رھے ہیں جو علاقے کی تاریخ میں بڑے نسل پرست انسان ہیں ۔ وہ بھی ایسے حالات میں ساری دنیا نتن یاھو سے منہ پھیر رھی ہے۔ ھمیں یقین ہے کہ دنیائے عرب اسے ھرگز قبول نھیں کرے گا بلکہ اس سے مقابلے میں پائمردی کا مظاھرہ کرے گی جیسے مصر کے عوام نے مزاحمت کی اور لبنان، شام، عراق، مراکش، سومالیہ، سوڈان، لیبیا، الجزائر اور یمن میں عوام نے اس کی مخالفت کی اور کر رھے ہیں ۔
ھم بے گناھوں کو خاک و خون میں غلطاں کرنے والی صھیونی حکومت سے دوستی کی ھر کوشش کی مذمت کرتے ہيں ۔ ھم اس انصاف، عزت اور حقیقی امن کے حامی ہیں جس پر سبھی آسمانی مذاھب نے تاکید کی ہے۔
ھم دوستیی کی ان کوششوں کو روک نھیں سکتے لیکن اس کی مخالفت ضرور کر سکتے ہیں۔ ھم کبھی بھی تسلیم نھیں ھوں گے کیونکہ ھمیں یقین ہے کہ جھوٹ کی عمر بھت چھوٹی ھوتی ہے ۔ اسی برائی سے کوئی اچھائی نکل کر سامنے آئے گی ۔ ھمیں عوام پر پورا اعتماد ہے اور عوام کے گھرے عقیدے سے پوری امید ہے۔
عبد الباری عطوان،رای الیوم
عرب ممالک پر صھیونی حکومت کا خونخوار پنجہ، کیا ہے سازش؟
- Details
- Written by admin
- Category: اھم خبریں
- Hits: 362