
سعودی عرب کے فرمانروا ملک سلمان بن عبدالعزیز نے 19 نومبر کے دن ملک کی مشاورتی کونسل سے خطاب کیا۔ انھوں نے اپنی تقریر میں ملک کی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں پر روشنی ڈالی۔ ملک سلمان بن عبدالعزیز نے اپنی تقریر میں یمن، فلسطین، شام، عراق اور ایران کے بارے میں اظھار خیال کیا اور اقوام متحدہ کی جانب سے یمن جنگ کے خاتمے کیلئے انجام پانے والی کوششوں کا خیرمقدم کیا۔
سعودی عرب گذشتہ چند ھفتوں سے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی وجہ سے عالمی میڈیا اور رائے عامہ کے شدید دباو کا شکار ہے۔ اسی وجہ سے سعودی حکومت اس دباو سے باھر آنے اور عالمی سطح پر گوشہ گیری سے بچنے کیلئے بھت سرگرم نظر آتی ہے۔
سعودی فرمانروا ملک سلمان بن عبدالعزیز نے اس بارے میں کھا: "سعودی عرب شدت پسندی اور دھشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھے گا اور سرمایہ کاری بڑھانے کیلئے خطے میں اپنی لیڈرشپ کیلئے کردار ادا کرتا رھے گا۔ اسی طرح سعودی عرب خطے میں موجود بحرانوں کے حل کیلئے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔ مسئلہ فلسطین ھماری پھلی ترجیح ہے اور جب تک فلسطینی قوم اپنے تمام قانونی حقوق حاصل نھیں کر لیتی پھلی ترجیح رھے گا۔"
سعودی فرمانروا ملک سلمان نے جمال خاشقجی کے قتل کے بارے میں کچھ نھیں کھا جو ان دنوں سعودی عرب کی داخلہ اور خارجہ سیاست کا ایک اھم ایشو بنا ھوا ہے۔ انھوں نے ایران پر الزام تراشی کرتے ھوئے ماضی کی طرح کئی دعوے کئے۔
ایران کے بارے میں انھوں نے کھا: "ایران کو خطے کے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی عادت پڑ چکی ہے۔ ایران خطے میں بدامنی اور تباھی پھیلانے کی کوشش کر رھا ہے۔ ھم عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایران کے جوھری پروگرام اور میزائل پروگرام کو محدود کرے اور خطے کی سلامتی اور استحکام کے خلاف ایران کی سرگرمیوں کو روکے۔"
ملک سلمان بن عبدالعزیز نے یمن کے بارے میں بھی بات کی اور مذاکرات اور سیاسی راہ حل کے بارے میں کھا: "یمن کے ساتھ ھمارا کھڑا ھونا ایک انتخاب نھیں بلکہ ھماری ذمہ داری ہے جس کا مقصد ایران کے حمایت یافتہ باغی مسلح عناصر کے مقابلے میں یمنی قوم کی مدد کرنا ہے۔ ھم چاھتے ہیں کہ یمن کے مسئلے کو سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2216 کے تحت سیاسی راہ حل کے ذریعے سلجھایا جائے۔"
سعودی فرمانروا ملک سلمان بن عبدالعزیز نے شام کے بارے میں اظھار خیال کرتے ھوئے کھا: "ھم شام کو درپیش موجودہ بحران کے خاتمے کیلئے سیاسی راہ حل پر زور دیتے ہیں۔ ھم اس ملک سے دھشت گرد تنظیموں کے انخلاء اور جلاوطن شامی شھریوں کی اپنے وطن واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں۔"
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ سعودی فرمانروا کی آج کی تقریر درحقیقت اس پالیسی کا حصہ ہے جو سعودی عرب نے خطے سے متعلق اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے اور عالمی سطح پر دباو سے باھر نکلنے کیلئے اختیار کی ہے۔ استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں حکومت مخالف سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد، جو اب بھی عالمی سطح پر ایک ہاٹ ایشو بنا ھوا ہے، ایسی علامات اور شواھد دیکھنے میں آئے ہیں جس سے ظاھر ھوتا ہے کہ سعودی عرب خطے سے متعلق اپنی پالیسی تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ امکان خاص طور پر یمن اور قطر کے بارے میں ظاھر کیا جا رھا ہے۔ لھذا یہ گمان ظاھر کیا جا رھا ہے کہ سعودی عرب بھت جلد یمن کے خلاف جارحانہ پالیسی ختم کر کے بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے سیاسی راہ حل تلاش کرنے کا راستہ اختیار کر لے گا۔ یمن کے علاوہ دیگر ایشوز پر بھی سعودی عرب کی حکمت عملی میں اسی قسم کی تبدیلی متوقع ہے۔
خطے میں ایک اور اھم مسئلہ قطر کا بحران ہے۔ بعض ایسی علامات ظاھر ھوئی ہیں جن سے معلوم ھوتا ہے کہ سعودی عرب قطر سے بھی اپنے اختلافات پرامن طریقے سے حل کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے۔ اس بارے میں گذشتہ روز کویت کے نائب وزیر خارجہ خالد الجاراللہ نے کھا کہ قطر اور اس کے مخالف ممالک یعنی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر کے درمیان مصالحت کا امکان بڑھ گیا ہے۔
انھوں نے مزید کھا کہ خلیج تعاون کونسل کے تمام رکن ممالک جن میں قطر بھی شامل ہے، ریاض میں منعقد ھونے والے آئندہ اجلاس میں شریک ھوں گے جو ایک امید افزا اقدام ثابت ھو گا۔ دوسری طرف خطے میں سعودی عرب کی جارحانہ پالیسیاں بھت حد تک محدود ھو گئی ہیں اور سعودی عرب نے گذشتہ دو سال کی نسبت زیادہ محتاطانہ انداز اپنا لیا ہے۔
اسی طرح اسرائیل میں وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کی سیاسی پوزیشن میں شدید تزلزل بھی اس بارے میں بھت اھم ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم کی پوزیشن کمزور ھونے سے خطے میں سعودی عرب کی پالیسی زیادہ تر دفاعی اور محتاطانہ ھو جائے گی۔
تحریر: محمد علی
کیا یمن اور قطر کے بحران حل ھونے کے قریب ہیں؟
- Details
- Written by admin
- Category: اھم خبریں
- Hits: 267

