
چار سال پھلے آل سعود اور آل زاید نے یمن کے خلاف مختصر مدت کی کامیاب جنگ کا دعوی کیا لیکن بھت جلد ان کا یہ دعوی سراب ثابت ھوا۔ لیکن دوسری طرف اسرائیل اور اس کے حامی مغربی ممالک یمن جنگ کے طولانی ھونے سے ناخوش نھیں تھے کیونکہ وہ اس بھانے اپنا اسلحہ اور جنگی سازوسامان بھتر انداز میں بیچ سکتے تھے۔
امریکہ اور مغربی ممالک نے یمن کے خلاف جارحیت کے دوران آل سعود رژیم کو درپیش سیاسی اور فوجی مشکلات اور عالمی رائے عامہ میں اس کے بارے میں پیدا ھونے والے منفی تاثر سے بھی فائدہ اٹھاتے ھوئے سعودی حکومت کو زیادہ سے زیادہ اپنے قریب لانے کی کوشش کی۔
اس دوران ایران فوبیا کی مھم بھی چلائی گئی اور عرب نیٹو کی تشکیل کی باتیں بھی سامنے آئیں تاکہ آل سعود رژیم کے مغربی ممالک اور اسرائیل پر مکمل انحصار کا مقدمہ فراھم کیا جا سکے۔
پیسے کے بدلے عرب فرمانرواوں کے تاج و تخت کی حفاظت کی منطق نے امریکہ اور یورپی ممالک کو یمن جنگ کی دلدل میں دھکیل دیا جبکہ ایک طرف جمال خاشقجی کے سفاکانہ قتل اور دوسری جانب یمن جنگ میں فتح ناممکن ھو جانا اور روز بروز انصاراللہ یمن کی طاقت میں اضافے نے مغربی ممالک کو مکمل بند گلی، بھاری اخراجات اور انسانیت کے خلاف جرائم میں شرکت جیسے مسائل میں الجھا کر رکھ دیا ہے۔
آج امریکہ، یورپ اور خاص طور پر اسرائیل کو درپیش مسئلہ صرف یہ نھیں کہ وہ عراق اور شام کی طرح یمن کی جنگ میں بھی بری طرح شکست سے دوچار ھو چکے ہیں بلکہ اس شکست کے انتھائی نقصان دہ نتائج اور اس کی جیوپولیٹیکل اور جیو اسٹریٹجک اھمیت نے انھیں ھہر چیز سے زیادہ خوفزدہ کر رکھا ہے۔
کیا اگر جیمز میٹس اور مائیک پمپئو ھراسانی کے عالم میں اگلے تیس دنوں میں یمن جنگ کے مکمل خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ سوئیڈن میں سیاسی بات چیت کا آغاز ھو سکے تو اس کی وجہ یمن میں ھزاروں بیگناہ شھریوں کے قتل عام کے باعث ان کا ضمیر بیدار ھو جانا ہے؟ یا اس کی وجہ محمد بن سلمان کے تاج و تخت کو بچانا ہے؟ ھر گز نھیں۔ امریکہ اور اسرائیل محمد بن سلمان، آل سعود رژیم اور آل زاید رژیم کا خاتمہ قبول کر چکے ہیں جو اپنی بقا کیلئے مالی اخراجات کرتے ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کی اصل پریشانی یمن جنگ میں شکست کے ایسے اسٹریٹجک نتائج ہیں جو خود انھیں بھگتنا پڑیں گے اور وہ ان کیلئے ناقابل برداشت ھوں گے۔
امریکی اور اسرائیلی حکام دیکھ رھے ہیں کہ خطے اور جنوبی یمن میں ان کے اتحادی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ھو چکے ہیں اور ان میں جنگ جیتنے کی صلاحیت نھیں رھی۔ لھذا امریکہ کی جانب سے یمن جنگ کے خاتمے کا مطالبہ درحقیقت وہ اھداف سیاسی بات چیت کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش ہے جو وہ جنگ سے حاصل نھیں کر پائے۔ یمن کے خلاف جنگ کا اصل مقصد اس ملک کو توڑنا تھا۔
حال ھی میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کا دورہ عمان اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ امریکہ اگر حقیقت میں یمن کی جنگ روکنا چاھے تو اس کیلئے صرف اتنا ھی کافی ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو اسلحہ فراھم کرنا بند کر دے۔ جیسا کہ انصاراللہ یمن نے بھی اس موقف کا اظھار کیا ہے کہ اگر امریکہ یمن میں جنگ ختم کرنے کا سچا ارادہ رکھتا ہے تو یہ اس کیلئے کوئی بڑا کام نھیں اور وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک قرارداد کے ذریعے یہ مقصد حاصل کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔
امریکہ کی جانب سے یمن جنگ کے خاتمے کا مطالبہ درحقیقت ایک مکارانہ چال ہے جس کا مقصد آل سعود رژیم کو نجات دلانا ہے۔ لیکن امریکہ اور مغربی طاقتوں کو یہ بات کبھی نھیں بھولنی چاھئے کہ یمن میں پائیدار امن صرف اس صورت میں ممکن ہے جب خود یمنی عوام کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ باقی تمام کوششیں ماضی کی طرح بند گلی سے روبرو ھوں گی۔
تحریر: ھادی محمدی
یمن جنگ کے خاتمے پر مبنی جھوٹ
- Details
- Written by admin
- Category: اھم خبریں
- Hits: 195

